شازیہ اکبر کی شاعری میں مشرق کی روایات کے ساتھ بغاوت نہیں ملتی ، مقررین کا خطاب
اسلام آباد(اسٹاف رپورٹر ) ممتاز ادبی وثقافتی تنظیم انحراف انٹر نیشنل اسلام آباد میں اعلیٰ معیار کے علمی اور تنقیدی پروگرام کروانے میں معروف ہے۔ اس تنظیم نے گزشتہ دنوں نئی نسل کی معروف شاعرہ شاذیہ اکبر کے دوسرے شعری مجموعے \” محبت حسنَ کامل ہے\” کی تقریب رُونمائی منعقد کروائی جس میں ممتاز اہل نقد و نظر اور شائقین ادب شریک ہوئے۔یہ تقریب اکادمی ادبیات پاکستان اسلام آباد کے کانفرنس ہال میں منعقد ہوئی ۔ پروگرام کے مقررہ وقت سے پہلے ہی ہال مہمانوں سے بھر چکا تھا۔ شرکت کرنے والوں میں اسلام آباد راولپنڈی کے علاوہ چاروں صوبوں ، آزاد کشمیر اور شمالی و سرحدی علاقوں سے تشریف لائے ہوئے ادیب، دانشور ، صحافی، سماجی کارکن اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد شامل تھے ۔ جزل ( ریٹائرڈ) محمد طاہر، بریگیڈئیر ( ریٹائرڈ) سراج الزمان، نظریہء پاکستان ٹرسٹ کےریجنل ڈائریکٹر عشرت معصوم اور ڈاکٹر شفقت حسین (ریجنل پروگرام مینیجر )اپنی اپنی نشستوں پر جلوہ افروز تھے۔ادیبوں میں سے جمیل یوسف،علی اکبر عباس، ڈاکٹرفرحت عباس، انجم خلیق، محبوب ظفر، عزیز اعجاز ( پشاور) ، اختر عثمان، ڈاکٹر صلاح الدین درویش اور علی ارمان( یو کے)کی موجودگی شاعرہ کا حوصلہ بڑھا رہی تھی۔
اس پروگرام کی صدارت ادارہ فروغ قومی زبان کے صدر نشیں ، ممتاز شاعر افتخار عارف نے کی جنہیں عصری ادب کی آبرو سمجھا جاتا ہے اور ممتاز دانشور ،متروکہ املاک وقف بورڈ کے چئیر مین صدیق الفاروق مہمانِ خصوصی تھے۔ اظہار خیال کرنے والوں میں افتخار عارف اور صدیق الفاروق کے علاوہ مہمانان خاص علی محمد فرشی، ڈاکٹر وحید احمد اور مقالہ نگار ڈاکٹر روش ندیم، ڈاکٹر ارشد معراج اور مہناز انجم شامل تھے۔ نظامت کے فرائض رحمان حفیظ اورفاخرہ نورین نے ادا کئے۔
کتاب پر گفتگوکرنے والوں نے شاذیہ اکبر کی نظموں کو مختلف زاویوں سے دیکھا اور ان کا مجموعی تجزیہ پیش کیا۔ مہناز انجم نے کہا کہ یہ نظمیں ہمارے سماج کی چھوٹی چھوٹی تصویریں ہیں جنہیں کمال مہارت سے پینٹ کیا گیا ہے۔ انہوں نے شاذیہ اکبر کے موضوعات کو بطور خاص اہم قرار دیا اور کہا کہ کسی بھی خاتون کے شعری مجموعے میں یہ تنوع بہت قابل قدر ہے خاص طور پر اس صورت میں کہ خواتین میں لکھنے کا رجحان بہت کم ہے اورنظم کی جانب تو ان کی توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایسے میں شاذیہ اکبر نے نظموں کا یہ بھر پور مجموعہ پیش کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ عورتیں کسی بھی شعبے میں مردوں سے کمتر نہیں۔ ان کا یہ اعتماد شاعرات کے لئے بہت تقویت کا باعث بنے گا۔ ارشد معراج نے شاذیہ کی نظموں میں تانیثیت کے حواے سے بات کی۔ ڈاکٹر روش ندیم نے اپنی مختصر گفتگو میں مشرق و مغرب میں جنس کے حوالے سے خواتین کی سوچ میں تبدیلیوں کی بات کی جس پر بعد میں آنے والے مقررین نے بھی اظہار خیال کیا۔ علی محمد فرشی نے روش ندیم کے نقطہء نظر سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ کم از کم اس کتاب کے حوالے سے کوئی ایسی سوچ پیدا نہیں ہوتی۔ ان کا خیال تھی کہ شاذیہ کی شاعری میں مشرقی روایات سے بغاوت کے آثار نہیں ملتے۔ وحید احمد نےمبارکباد پیش کرتے ہوئے شاعرہ سے مزید توقعات وابستہ کیں۔ صدیق الفاروق نے محبت حسن کامل ہے\” کو شازیہ اکبر کی نجی اور سماجی حیثیات کے تناظر میں دیکھا۔ان کی گفتگو کا کافی حصہ غیر رسمی بھی تھا۔ افتخار عارف نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ شاعر ہ کا سفر قابلِ قدر ہے تاہم ابھی انہوں نے اور بہت آگے جانا ہے۔ اس کے لئے مزید محنت، کمٹمنٹ اور اعتماد کی ضرورت ہو گی۔
اس موقع پر موجود دیگر اہم شعرا دبا میں ، جہانگیر عمران، ڈاکٹر سلیم سہیل، محمد نعیم جاوید، ظہور احمد، مظہر شہزاد خان، علی ارمان، جمال زیدی، فرح دیبا، ڈاکٹر ناہید اختر، جیا قریشی، بشریٰ حزیں ، صبا صادق،رخسانہ سحر، مومنہ، نوشابہ ہاشمی، شہزاد واثق، تیمور ذوالفقار، نذر حسین ناز، اللہ راضی راجپوت، ربیع صفدر، سعید اختر اور ناصر چوہدری نمایاں نظر آئے۔دوسرے شہروں سے آئے ہوئے احباب میں سے لاہور سے ندیم حق ، باجوڑ سے آشنا باجوڑے، واہ سے حفیظ اللہ بادل، ہاشم ہمدم، اٹک سے زبیر قیصر،میانوالی سے عاصم نیازی، آزاد کشمیر سے پرفیسر عامر جہانگیر، فتح جنگ سے محمد افضل، حسیب اعزاز، سمیل پینٹر اور ٹیکسلا سے حفیظ اللہ بادل بھی پروگرام کی رونق میں اضافے کا باعث بنے۔
یوں یہ اب وقاراور یادگار تقریب اپنے اختتام کو پہنچی۔