٭صالحہ صدیقی
(جامعہ ملیہ اسلامیہ ،نئی دہلی)
Email: salehasiddiquin@gmail.com
گول مٹول سی میری نانی
چشمہ لگائے آنکھوں پر
منھ میں پان دبائے
مند مند مسکراتی میری نانی
آنکھوںمیں کاجل لگاکر
بالوں میں مہندی کا رنگ
ہونٹوں پر پان کا رنگ
جیسے سرخی ہو لگائی
مانگ نکال کر
بال سنوارتی
لگتی مینا کماری جیسی میری نانی
بھرے بھرے سے گال تھے ان کے
جیسے دو لڈو ہو دبائے
روئی جیسے ہاتھ تھے ان کے
جیسے شہد مکھی نے چم لیا ہو
گورا گورا مکھڑا ان کا
جیسے چاند کا ٹکڑا
بنی سنوری مری نانی
ہنستی ہنساتی میری نانی
کہنے کو وہ ان پڑھ تھی
لیکن گیان کی دھنی میری نانی
ہر مرض کا علاج میری نانی
سلائی ہو یا کڑھائی ہو
کھانا پکانا ہو یا کھلا نا ہو
اچار ہو کہ مصالحہ ہو
حلوہ ہو یا ملیدہ ہو
کٹھی میٹھی چیز بناتی
پھر بڑے پیار سے سب کوکھلاتی
باتیں ان کی رنگ برنگی
کبھی بھوت کی کبھی پریت کی
کبھی بوڑھوں کی کبھی بچوں کی
کبھی گاؤں کی کبھی شہر کی
اترنگی تھی میری نانی
موبائل پر لوری سنتی
ساتھ میں لائبہ کو بھی سناتی
ہر دم اس کو پاس میں رکھتی
ممتا کا دریا لٹاتی
سینے سے پھر اس کو لگاتی
ہاتھ سے اس کو کھانا کھلاتی
بڑے پیار سے اس کو نہارتی
ایسی معصوم تھی میری نانی
ہر کام میں آگے رہتی
پیڑ پودوں سے محبت کرتی
خود جاکر ان میں پانی دیتی
جوش سے بھری میری نانی
زندہ دل تھی میری نانی
لفظوں سے پرے تھی میری نانی
آج بھلے وہ نہ ہو
ان کی یادیں زندہ ہے
اس لیے میرے
پاس رہیں گی ہمیشہ میری نانی…