جشن یومِ اقبالؔ

\"\"
٭خان حسنین عاقب ؔ

جی۔این۔آزاد کالج، پوسد۔ مہاراشٹر

\"\"
۱

چلو! قلم کو عبادتوں کا مزہ چکھائیں
جدید لہجے کے شاعروں کو
روایتوں کا مزہ چکھائیں
انہیں بتائیں اسی افق پر
شہِ سخن بھی براجماں تھا
وہ اپنا اقبالؔ جو کہ مِلت کا ترجماں تھا
مگر نہ جانے وہ کتنے لوگوں سے مختلف تھا
وہ عہدِ رفتہ کی عظمتوں کا بھی معترف تھا
وہ عہدِ حاضِر کی ساری چالاکیوں کا شاکی
تھا اس کا ایماں کہ اصلِ انساں تو بس ہے خاکی
نظر میں اس کی تھا عشق و مستی کا سلسلہ بھی
اسے مسلماں کی کور ذوقی سے تھا گِلہ بھی
سکھائے اس نے قلم کو اپنے
طریقے رقصِ متاعِ جاں کے
اسی نے سمجھائے راز ہم کو
خودی کے، خود کے، خدا کے، اسرار دو جہاں کے
اسے جمیعت کا والہانہ خیال بھی تھا
اسے مسلماں کی پارہ پارہ عقیدتوں کا ملال بھی تھا
اسے پتا تھا کہ خیال کیا ہے؟
اسے پتا تھا کہ حال کیا ہے
اسے زمانوں کی پیش بینی کا شوق بھی تھا
اسے تو احیائے عظمتِ رفتہ کی تلاش اور جستجو کا
یقین بھی اور ذوق بھی تھا
زمیں کو اس نے فلک کی آغوش میں بٹھایا
نوائے اقبال ؔنے مسلماں کو گہری نیندوں سے پھر جگایا
۲
بہت محبت ہے دل میں اس کی
بہت عقیدت ہے دل میں اس کی
چلو، ہم اس کا کلام گائیں
چلو کہ اس بار بھی ہمیشہ کی طرح
اقبالؔ ڈے منائیں
چلو، ادیبوں کی ایک مجلس
اسی کو منسوب کیوں نہ کردیں؟
اگر ہو ممکن، مشاعروں کا کوئی تماشہ بھی
نذرِ محبوب کیوں نہ کردیں؟
اگر ہوممکن، حیات پر اس کی فِلم ہی
کیوں نہ ہم بنادیں؟
چلو تقاضہ کریں یہ دنیا سے
اس کو بخشے یہ نوبل انعام
اسے دلائیں زمانے بھر سے ہزار اکرام
اسی کے دم پر معلموں کے گروہ روزی کمارہے ہیں
ہزارہا اس کے نام پر کاروبار اپنے چلارہے ہیں
تو جمع کرلیں انہیں، دکھا کر نئی امیدوں کے وا دریچے؟
کہ ساتھ لے کر انہیں لگائیں نئے رواجوں کے اونچے نعرے؟
۳
مگر اسے اس سے کوئی شائد خوشی نہ ہوگی
نہیں! کہ ہرگز خوشی نہ ہوگی، کبھی نہ ہوگی
وہ شخص تو تھا عمل کا جویا
عمل کی خاطر وہ کتنا رویا
اسے مسلماں کی خستہ حالی پہ تھی کڑھن بھی
شعور جس پہ تھا اس کا غمگیں، ملول مَن بھی
وہ ایک بندہ تھی منکشف جس پہ رمزِ ’کُن‘ کی ہراک حقیقت
وہ ایک شاعر جسے خودی کے نگار خانوں سے تھی عقیدت
جہاں مسلماں کی، پستیوں پر ہی بس نظر تھی
اسے بلندی یقینِ دل کی عزیز تر تھی
تھا جب مسلماں کے فکر و ایماں پہ کا ہلوں سا جمود طاری
عصائے شعرو ہنر نے اس کے لگائی ذہنوں پہ ضربِ کاری
اسے یقیناً تکلف و رسمِ دل نا گوار ہوگی
۴
سنو بزرگو، سنو جوانو!
چلو ہم ایسا کریں کہ اس کے
ہر اک تصور کو عام کردیں
نظر میں ا س کے تھی جو حقیقت
اسی حقیقت کا ہم بھی قائم نظام کردیں
اسے شریعت کی جستجو تھی
چلو ہم ایسا کریں کہ اِس دمَ
خود اپنے اعمال کی خبر لیں
خدا کی رسی کو کس کے دھر لیں
خود اپنی فکروں کو چست کرلیں
صفیں جو اپنی ہیں منتشر
ان صفوں کو ہم سب درست کر لیں
ہمارا ایماں رہے سلامت
ہمیں ہو حاصل نبی کی چاہت
چلو کہ تبدیلیوں کی ایسی ہوا چلائیں
کہ عشق بیز و خیال آور ہوں یہ فضائیں
ہر ایک مسلمِ جوان اقبالؔ کا اگر ہم مزاج ہوگا،
اسے ہمارا یہی حقیقی خراج ہوگا

Leave a Comment