نواز دیوبندی کی شعری فکر

\"\"
٭ڈاکٹر زیبا محمود

صدر شعبہ اردو
گنپت سہائے پی ۔جی۔ کالج،سلطانپور،یوپی۔

\"\"

اپنی محنت اور مشقت سے زندگی کے تمام مراحل طے کرتے ہوئے ڈاکٹر نواز دیوبندی مشاعروں کے حوالے سے نہ صرف بین الاقوامی شہرتوں تک پہنچے بلکہ انھوں نے مشاعرے کے مقبول شاعر ہوتے ہوئے بھی شاعری میں اعتبار حاصل کیا۔ یہ وہ دولت ہے جو مشاعرون کے شعرا کو فی زمانہ کم نصیب ہوتی ہے۔وہ ایک شاعر ہی نہیں بلکہ ایک تاریخ داں،ادیب ، صحافی اور ایک ماہر تعلیم بھی ہیں اور تعلیم کے میدان میں انھوں نے وہ کارہائے نمایاں انجام دئے ہیں جو ثواب جاریہ کے زمرے میں ا?تے ہیں۔کئی اسکول اور کالج انھوں نے خود قائم کئے اور کئی تعلیمی اداروں کو رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات فراہم کر کے انھیں زندگی بخشی۔ڈاکٹر نواز دیوبندی اتار پردیش اردو اکادمی کے چئیر مین بھی رہے۔اور اپنے دوران کار میں انھوں نے شعرو ادب اور اردو زبان کے فروغ کے لئے نئے منصوبوں پر عمل کیا جس کے خاطر خواہ نتائج بھی سامنے ا?نے لگے تھے۔اس شعبہ میں ان کی خدمات کا جائزہ لینے اور احاطہ کرنے کے لئے الگ سے وقت درکار ہے۔فی الحال میرا موضوع ان کی ان کی وہ شاعری ہے۔جو بین الاقوامی سطح پر ان کا شناخت نامہ مرتب کرتی ہے۔
ڈاکٹرنواز دیوبندی نے اپنی غزلوں میںقدیم و جدید رو یوں کے جس امتزاج کو پیش کیا ہے اس سے ان کی مزاجی کیفیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔انھوں نے اپنے کلام میںفنی لوازمات کے مقابلے میں زمانے کی رفتار کو منعکس کرنے کی کوشش کی زیادہ سعی کی ہے۔انھوں نے قدیم و جدید کے مابین ایک متوازن لہجہ اختیار کر اپنی غزلوں کو سنوارنے اور نکھارنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔نواز دیوبندی کسی استاذ کے حلقہ ٔتلامذہ میں شامل نہیں ہوئے۔ان میں شاعری کا جذبہ فطری اور خداداد ہے۔جبھی تو بچپن ہی میں انھیں شعروشاعری سے لگاؤ ہو گیا انھوں نے (روز نامہ اودھ نامہ)کے لئے ڈاکٹر ہارون رشید کو انٹر یو دیتے ہوئے بتایا تھا کہ وہ دیوبند اور نواح میں ہونے والی شعری نشستوں میںبچپن ہی سے شرکت کرنے لگے اور ترنم سے کلام پڑھتے تھے ان کی خوش گلو ہونے کے سبب ہی ان کو عامر عثمانی(ماہنامہ تجلی کے ایڈیٹر)نے دیوبند کے پاس’’ کھتولی‘‘میں پہلا مشاعرہ پڑھنے کا موقع فراہم کیا تھا۔ڈاکٹر نواز دیوبندی نے ایک سوال کے جواب مین بتایا تھا کہ انھوں نے پہلا شعر اس وقت کہا تھا جب وہ درجہ ششم یعنی چھٹے درجے کے طالبعلم تھے ۔وہ شعر یو ں تھا:۔
شبنم تو رو کے دے گئی اپنا ثبوت ِغم
آنکھوں میں ہوں نہ اشک تو بدلاؤ کیا کریں
اس کے بعد کب وہ با قاعدہ شاعر ہو گئے اس کا پتہ ہی نہیں چلا لیکن آج وہ ایک مشاق فنکار ہیں۔ان کے کلام میں تاثیراور پختگی ہے۔وہ شروع ہی سے زلف ِجانان اور چشم و ابرو والی شاعری پر قناعت نہ کرتے ہوئے ایسی سخن سرائی میں سرگرداں نظر آتے ہیں جس سے ان کی متوازن شاعرانہ شخصیت ابھر کر سامنے آتی ہے۔اپنے انفرادی طرز میں فطرت کے مناظر اور سماج کی تصویر گری اور جوش کے انداز میں قومی اور انقلابی شاعری ان کے شعری افکارکی بے پناہ ترجمان ہیں۔زبان و بیان اور زمینی پیکروں کی رعنائی ان کا وصف ہے۔ان کے اشعار میںسوز و گداز کی جو کیفیت پائی جاتی ہے وہ فطرت کا ایسا عطیہ ہے جس پر خارجی اثرات سیاور اس کے اظہار کا وہ وسیلہ دریافت ہوتا ہے جو دبی دبی چنگاری کے شعلے کو لپک دے سکتا ہے۔اگر چہ ان کے یہاںروایتی تقلید کے اثرات نمایاں ہیں پھر بھی کلامِ نواز میں عصری رجحانات کے گل بوٹے اور تلخ حقائق کے عناصر کی بھی شمولیت ہے۔ملاحظہ ہوں یہ اشعار:۔
مفلسی کا چراغ جلتا رہا
زندگی کٹ گئی اجالے میں
ایک جگنو بھی دیوں کے ساتھ روشن تھا مگر
جب اندھیرا ہو گیا تب لوگ پہچانے اسے
سنا یہ ہے کہ شریفوں پہ لوگ ہنستے ہیں
تو شکریہ کہ ہمیں معتبر کیا تم نے
دیکھ کر سوچا تو پایا فاصلہ ہی فاصلہ
سوچ کر دیکھا تو تم میرے بہت نزدیک تھے
ان کی غزلوں کے اشعار میں سلاست ہے،بلاغت ہے معنی آفرینی ہے،زبان کی سلاست خیال کی بلاغت لئے ہوئے نوازدیوبندی کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:۔
یہ مانا خاک کر دیتی ہے لیکن
محبت پھول ہے شعلہ نہیں ہے
شدت تشنگی کے موسم میں
قطرے دریا کا کام دیتے ہیں
محبت میں جو ہونا ہے وہی انجام لکھ دیجے
جہاں کی تہمتیں ساری ہمارے نام لکھ دیجے
بزدل تھا مستحق تھا میں مجھ کو سزا ملی
بخشا نہ اس نے ہاتھ اٹھانے کے با وجود
خوابوں ے شوق میں کہیں آنکھیں گنوا نہ دیں
ہم سو رہے ہیں نیندنہ آنے کے با وجود
حریفوں کے اپنے بھرم توڑ دینا
غزل ایسی لکھنا قلم توڑ دینا
مفلسی پر سرمایہ داری کا جبر خلاف انسانیت ہے۔اس کے خلاف احتجاج ضروری ہے۔نو از کے فن پاروں میں اس احتجاج کی جاندار مثالیں ملاحظہ ہوں:۔
شہر میں ایسے تو حالات نہیں تھے پہلے
رنجشیں تھیں یہ فسادات نہیں تھے پہلے
مرا خلوص ہے جب تک یہاں کی مٹی میں
ترے فریب کا پودا ہرا نہیں ہو گا
مت کرو ظلم کے محل تعمیر
زلزلے بے سبب نہیں آتے
جب تک کہ مقید نہ ہو مٹھی میں یہ سورج
ہم پیڑ کے سائے پہ بھروسہ نہیں کرتے
میں اپنے بچون کی خاطر ہی جان دے دیتا
مگر غریب کی جاں کا معاوضہ کم ہے
کہیں کہیں ایسے اشعار بھی ملتے ہیں جہاں مایوسی اور قنوطیت اس حد کو پہونچتی ہے کہ وہ دعا اور دوا دونوں سے ناامید ہو جاتے ہیں:۔
بے کار جب دعا ہے دوا کیا کرے گی آج
ایسے میں زندگی بھی وفا کیا کرے گی آج
یہ دور سخت و تلخ کلامی کا دور ہے
لہجوں کی نرم طرز ادا کیا کرے گی آج
لیکن یہ لہجہ نواز کا وہ لہجہ نہیں ہے جو ان کی شناخت ہے۔آپ کے اشعار میں عزم و ہمت کی بھر پور عکاسی نظر آتی ہے ان کے اکثر اشعار وطن پرستی کی بنیاد کو مضبوط کرتے ہیں۔اس کے ساتھ ہی انسانیت نوازی کا جذبہ بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔انھوں نے اپنی شاعری کو زندگی کے سادے پہلووں کو وا کرنے کی کوشش کی ہے۔انھوں نے وطن دوستی کے اعلی جذبات کواپنی غزلوں کے کئی اشعار میںکامیابی کے ساتھ منعکس کیا ہے۔آپ کے کلام میں صداقت ہے۔سوز و ساز کی دل نشیں کیفیات سے مزین طرز ادا کی پختگی بھی ہے۔وہ اپنی غزلوں کے ذریعے اپنے عہد کے تقاضوں کو بروئے کار لانے میںکامیاب ہوئے ہیں۔اس کے ساتھ ہی دیگر موضوعات بھی بڑے سلیقے سے جلوہ گر ہیں۔
ترقی پسند نظریات کی ساتھ ہی نواز کی غزلوں میں جدید انداز کی جھلکیاںبھی دکھائی دیتی ہیں جس کی وجہ سے ان کی غزلیںجو ترقی پسند لب و لہجہ شعری فن پاروں میں پوری فکری سنجیدگی اور ذہنی وسعتوں کے ساتھ توجہ دی ہے۔ان کے کلام ملک کے موقر رسائل اور جرائد میں شائع ہوتا رہتا ہے۔مضامین کی تاثیر اور تخئیل کی بلند پروازی ملاحظہ ہو:۔
جو کشتیوں کو ڈبوتا ہے لا کے ساحل پر
تمہیں بتاؤ اسے نا خدا کہوں کیسے
کچھ اس کی بے وفائی کا اس سے بھی زکر ہو
اس کو بھی کچھ حجاب تو آ جائے کم سے کم
کہا کہ غیر کا قصہ ہے غور سے سن لے
سنا کے دستاں اپنی اسے رلا آئے
رموز چشم گریہ سے جو شبنم کی ہوئے واقف
سحر ہونے سے پہلے وہ ستارے ڈوب جاتے ہیں
آج آپ کا شمار ملک کے مقبول شعرا میں ہونے لگا ہے۔نتیجہ یہ ہے کہ ان کی بلند فکری وسعتوں کا اور گہرے مطالعے کا جس نے انھیں حیات و کائنات کے ساتھ ہی فنی اور اسلوبی اعتبار سے بلندیوں تک پہنچا دیا۔ان کے کلام کا اصل رنگ یوں تو جذبۂ عشق ہے لیکن انھوں نے اپنی منزل کو حسن و عشق تک محدود نہیں رکھا۔بلکہ اس میں زندگی کا کشید ،تجربات و احساسات اور حالات کو بھی اپنی غزل کا جزوِ خاص بنایا۔نواز دیوبندی اپنے تجربات کا اظہار پورے وثوق کے ساتھ کرتے ہیں۔ان کے اس قسم کے تجربات میں ان کا شعور بھی شامل دکھائی دیتا ہے جو ان کی حسیت کو دوبالا کردیتا ہے۔ اس سلسلہ میں ان کی غزل کے چند اشعار یہاں پیش کر رہی ہوں:۔
پتھر سے کہو دن کو نہ ہم رات کہیں گے
ہم شیشہ صفت لوگ ہیں حق بات کہیں گے
اسی کا مال تو بکتا ہے اس زمانہ میں
جو اپنے نیم کے پتوں کو زعفران ہے
بڑی مشکل سے نکلے گی کوئی صورت تعلق کی
تمہیں رونا نہیں آتا ہمیں ہنسنا نہیں آتا
شہروں شہروں خونریزی میں شیطانوں کا نام نہ لو
اس سازش کے پیچھے کوئی انساں بھی ہو سکتا ہے
نیند آتی ہے سن کر انھیں اخبار کی خبریں
بچے مرے پریوں کی کہانی نہیں سنتے
شدت تشنہ لبی کی وسعتیں بڑھتی گئیں
دیکھتے دیکھتے ہی قطرہ سمندرہو گیا
نواز دیوبندی کی شاعری ایسے دور میں پروان چڑھی جب ترقی پسندی کا عروج تھا۔اور اس وقت بھی ان کا شعری سفر جاری رہا۔ جب جدیدیت پوری طرح سے شعروادب پر حاوی ہو چکی تھی۔اور انھوں نے وہ دور بھی دیکھا کہ جب جدیدیت بھی ٹھنڈے بستے میں چلی گئی۔ ایک طرح سے ادب میں نظریات کا خاتمہ ہو گیا اور ادب میں ادبیت پر زور دیا جانے لگا۔پھر ما بعد جدیدیت کا شوشہ چھوڑا گیا اور اب بعد ما بعد جدیدت۔لیکن ان تمام رجحانات اور نظریات کے تناظر میں بھی اگر نواز دیو بندی کے کلام کو بغور دیکھیں تو کہیں بھی ان کی شاعری کسی نظریات کی تابع یا پابند نظر نہیں ا?تی۔وہ موضوع کے تقاضے کے تحت ہی اسلوب اور طرز بیان کا انتخاب کرتے ہیں۔تاکہ معنی کی ترسیل بآسانی قاری اور سامع کے ذہنوں تک ہو سکے۔انھوں نے اپنی شاعری کو اپنے دل کے تابع رکھا ہے اور جہاں جو ،جیسا محسوس کیا ہے ویسا ہی اظہار کیا ہے اور کیوں نہ ہو جب کہ وہ ایک قادرالکلام اور ماہر فن شاعر ہیں۔ان کی شاعری میں شگفتگی ہے۔دل آویزی ہے اور اثر آفرینی بھی۔یہی وہ عناصر ہیں جو کسی شاعر کو پختگی عطا کرتے ہیں۔ان کے کلام میں خارجی دنیا ہے اور زندگی سے جو کچھ ملا ہے اس کے اظہار میں فراوانی موجود ہے۔ان کے کلام کو یہ سعادت حاصل ہے کہ ان کے تجربے بڑی آسانی سے قاری کے تجربے بن جاتے ہیں جو ان کی شاعری کا کامیاب ترین پہلو ہے۔نواز دیوبندی صرف ایک شاعر ہی نہیں بلکہ اردو زبان و ادب کے فروغ اور اس کی بقاکی راہ میں بھی ان کی ایک منفردشناخت قائم ہے۔

Leave a Comment